عزیز اِتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اِس قدر بھی نہ چاہو کہ دَم نکل جائے

ملے ہیں یُوں تو بہت آؤ اب ملیں یُوں بھی
کہ رُوØ+ گرمئ انفاس سے Ù¾Ú¯Ú¾Ù„ جائے

Ù…Ø+بّتوں میں عجب ہے دلوں Ú©Ùˆ دھڑکا سا
کہ جانے کون کہاں +راستہ بدل جائے

زہے وہ دل جو تمنّائے تازہ تر میں رہے
خوشا وہ عمر جو خوابوں ہی میں بہل جائے

میں وہ چراغ سر ِ رہ گزار ِ دُنیا ہوں
جو اپنی ذات کی تنہائیوں میں جل جائے

ہر ایک Ù„Ø+ظہ یہی آرزو یہی Ø+سرت
جو آگ دل میں ہے وہ شعر میں بھی ڈھل جائے

عبيد اللہ عليم